انبیاء کرام علیہم السلام کے جامع مناقب کا بیان

Share:

144/ 1. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ رضی الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم قَالَ: لَا تُخَيِّرُوا بَيْنَ الْأَنْبِيَاءِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

الحديث رقم: أَخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الديات، باب: إِذا لطم المسلم يهوديا عند الغضب، 6/ 2534، الرقم: 6518، ومسلم في الصحيح، کتاب: الفضائل، باب: من فضائل موسی عليه السلام، 4/ 1845، الرقم: 2374، وأَبوداود في السنن، کتاب: السنة، باب: في التخيير بين الأَنبياء عليهم الصلاة والسلام، 4/ 217، الرقم: 4668، وأَحمد بن حنبل في المسند، 3/ 31، 33، الرقم: 11283، 11304، وابن حبان في الصحيح، 14/ 130، الرقم: 6237، وابن أَبي شيبة في المصنف، 6/ 326، الرقم: 31798، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 4/ 315، وأَبو يعلی في المسند، 2/ 517، الرقم: 1368، والطبراني في المعجم الأَوسط، 1/ 88، الرقم: 260.

’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: انبیاء کرام علیہم السلام کے درمیان (بعض کو بعض پر) فضیلت مت دو۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

145/ 2. عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ رضی الله عنه يَقُولُ: إِنَّ رُؤْيَا الْأَنْبِيَاءِ وَحْيٌ ثُمَّ قَرَأَ: {إِنِّي أَرَی فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُکَ} [الصافات، 37: 102].

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ کِلَاهُمَا عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما.

وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.

الحديث رقم: أَخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الوضوء، باب: التخفيف في الوضوء، 1/ 64، الرقم: 138، والترمذي في السنن، کتاب: المناقب، باب: في مناقب عمر بن الخطاب رضی الله عنه، 5/ 602، الرقم: 3689، والحاکم في المستدرک، 2/ 468، الرقم: 3613، 4/ 438، الرقم: 8197، وابن أَبي عاصم في السنة، 1/ 202، والبيهقي في السنن الکبری، 1/ 122، الرقم: 596، والحميدي في المسند، 1/ 224، الرقم: 474، والطبراني في المعجم الکبير، 12/ 6، الرقم: 12302، والديلمي عن ابن عمر رضي اﷲ عنهما في مسند الفردوس، 2/ 272، الرقم: 3264، والطبري في جامع البيان، 23/ 78.

’’حضرت عبید بن عمیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انبیاء کرام علیہم السلام کے خواب بھی وحی ہوتے ہیں پھر یہ آیت پڑھی: ’’پس خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں۔‘‘

اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا نیز امام ترمذی اور حاکم نے بھی حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

146/ 3. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم : رَأَيْتُ عِيْسَی وَمُوسَی، وَإِبْرَاهِيْمَ فَأَمَّا عِيْسَی فَأَحْمَرُ جَعْدٌ عَرِيْضُ الصَّدْرِ وَأَمَّا مُوسَی فَآدَمُ جَسِيْمٌ سَبْطٌ کَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ الزُّطِّ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ مَنْدَه.

الحديث رقم: أَخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الأَنبياء، باب: قول اﷲ: واذکر في الکتاب مريم، 3/ 1269، الرقم: 3255، وابن منده في الإيمان، 2/ 738، الرقم: 726، والطبراني في المعجم الکبير، 11/ 64، الرقم: 11057، واللالکائي في اعتقاد أَهل السنة، 4/ 772، الرقم: 1429، والديلمي في مسند الفردوس، 2/ 256، الرقم: 3191.

’’حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: (شبِ معراج) میں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو سرخ رنگ، گھنگریالے بالوں اور چوڑے سینے والے تھے۔ علاوہ ازیں حضرت موسیٰ علیہ السلام گندمی رنگ اور سیدھے بالوں والے تھے گویا قبیلہ زط کے فرد ہیں۔‘‘

اس حدیث کو امام بخاری اور ابن مندہ نے روایت کیا ہے۔

147/ 4. عَنْ سَعْدٍ رضی الله عنه، قَالَ: قُلْتُ:يَا رَسُولَ اﷲِ، أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَـلَاءً؟ قَالَ: الْأَنْبِيَاءُ ثُمَّ الْأَمْثَلُ فَالْأَمْثَلُ فَيُبْتَلَی الرَّجُلُ عَلَی حَسْبِ دِيْنِهِ فَإِنْ کَانَ دِيْنُهُ صُلْبًا اشْتَدَّ بَـلَاؤُهُ. وَإِنْ کَانَ فِي دِيْنِهِ رِقَّةٌ ابْتُلِيَ عَلَی حَسْبِ دِيْنِهِ فَمَا يَبْرَحُ الْبَـلَاءُ بِالْعَبْدِ حَتَّی يَتْرُکَهُ يَمْشِي عَلَی الْأَرْضِ مَا عَلَيْهِ خَطِيْئَةٌ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَةَ وَالْبُخَارِيُّ فِي تَرْجَمَةِ الْبَابِ مُخْتَصَرًا.

وَقَالَ أَبُوعِيْسَی: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

وفي رواية أَحمد: قَالَ: إِنَّ مِنْ أَشَدِّ النَّاسِ بَـلَاءً الْأَنْبِيَاءُ ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ.

وفي رواية للحاکم: قَالَ: الْأَنْبِيَاءُ، قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: الْعُلَمَاءُ: قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: ثُمَّ الصَّالِحُوْنَ.

الحديث رقم: أَخرجه الترمذي في السنن، کتاب: الزهد عن رسول اﷲ صلی الله عليه واله وسلم، باب: ماجاء في الصبر علی البلاء، 4/ 601، الرقم: 2398، وفي الصحيح، کتاب: المرضی، باب: أَشد الناس بلاء الأَنبياء ثم الأَمثل فالأَمثل، 5/ 2139، والنسائي في السنن الکبری، 4/ 355، 379، الرقم: 7496، 7613، وابن ماجة في السنن، کتاب: الفتن، باب: الصبر علی البلاء، 2/ 1334، الرقم: 4023. 4024، وأَحمد بن حنبل في المسند، 6/ 369، الرقم: 27124، وابن حبان في الصحيح، 7/ 160، الرقم: 2900، 2921، والدارمي في السنن، 2/ 412، الرقم: 2783، والحاکم في المستدرک، 1/ 99، الرقم: 120، 3/ 448، الرقم: 5463، 4/ 448، الرقم: 8231، وأَبو يعلی في المسند، 2/ 312، الرقم: 1045، والشاشي في المسند، 1/ 130، الرقم: 67، والأَزدي في مسند الربيع، 1/ 377، الرقم: 993، والبيهقي في السنن الکبری، 3/ 372، الرقم: 6325، والطبراني في المعجم الکبير، 24/ 245، الرقم: 627، 629.

’’حضرت سعد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اﷲ، لوگوں میں سب سے زیادہ سخت آزمائش کس کی ہوتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: انبیاء کرام علیہم السلام کی، پھر درجہ بدرجہ مقربین کی۔ آدمی کی آزمائش اس کے دین کے مطابق ہوتی ہے۔ اگر دین میں مضبوط ہو تو سخت آزمائش ہوتی ہے۔ اگر دین میں کمزور ہو تو حسبِ دین آزمائش کی جاتی ہے۔ بندے کے ساتھ یہ آزمائشیں ہمیشہ رہتی ہیں یہاں تک کہ وہ زمین پر اس طرح چلتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔‘‘

اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور امام بخاری نے ترجمۃ الباب میں مختصرًا روایت کیا ہے۔ امام ابوعیسیٰ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے۔

اور امام احمد کی ایک روایت میں ہے کہ لوگوں میں سب سے زیادہ سخت آزمائے جانے والے انبیاء کرام علیہم السلام ہوتے ہیں پھر جو ان سے ملے ہوتے ہیں پھر جو ان سے ملے ہوتے ہیں پھر جو ان سے ملے ہوتے ہیں۔

اور امام حاکم کی ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: لوگوں میں سب سے زیادہ سخت آزمائے جانے والے انبیاء کرام علیہم السلام ہوتے ہیں پھر علماء اور پھر صلحاء۔‘‘

148/ 5. عَنْ کَعْبٍ رضی الله عنه قَالَ: إِنَّ اﷲَ قَسَّمَ رُؤْيَتَهُ وَکَـلَامَهُ بَيْنَ مُحَمَّدٍ وَمُوْسَی عليهما السلام. فَکَلَّمَ مُوْسَی عليه السلام مَرَّتَيْنِ وَرَآهُ مُحَمَّدٌ صلی الله عليه واله وسلم مَرَّتَيْنِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ.

الحديث رقم: أَخرجه الترمذي في السنن، کتاب: تفسير القرآن عن رسول اﷲ صلی الله عليه واله وسلم، باب: ومن سورة والنجم، 5/ 394، الرقم: 3278، والحاکم في المستدرک، 2/ 629، الرقم: 4099، وعبداﷲ بن أحمد في السنة، 1/ 286، الرقم: 548، ورجاله ثقات، وابن راهويه في المسند، 3/ 790، الرقم: 1421، وابن النجاد في الرد علی من يقول القرآن مخلوق، 1/ 37، الرقم: 17، والطبري في جامع البيان، 27/ 51، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 7/ 56، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 4/ 251، والعسقلاني في فتح الباري، 8/ 606، الرقم: 4574.

’’حضرت کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بے شک اﷲ تعالیٰ نے اپنی رؤیت (دیدار) اور اپنے کلام کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے درمیان تقسیم فرمایا۔ پس اﷲ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ دو مرتبہ کلام فرمایا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اﷲ تعالیٰ کو دو مرتبہ دیکھا۔‘‘

اس حدیث کو امام ترمذی، حاکم اور طبری نے روایت کیا ہے۔

149/ 6. عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَيَامِکُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فِيْهِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِيْهِ قُبِضَ وَفِيْهِ النَّفْخَةُ، وَفِيْهِ الصَّعْقَةُ فَأَکْثِرُوْا عَلَيَّ مِنَ الصَّلَاةِ فِيْهِ، فَإِنَّ صَلَاتَکُمْ مَعْرُوْضَةٌ عَلَيَّ، قَالَ: قَالُوْا: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، کَيْفَ تُعْرَضُ صَلَاتُنَا عَلَيْکَ وَقَدْ أَرِمْتَ؟ يَقُوْلُوْنَ: بَلِيْتَ قَالَ صلی الله عليه واله وسلم : إِنَّ اﷲَ حَرَّمَ عَلَی الْأَرْضِ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ. رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَالنِّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَةَ.

الحديث رقم 1: أخرجه أَبوداود فی السنن، کتاب: الصلاة، باب: فضل يوم الجمعة وليلة الجمعة، 1/ 275، الرقم: 1047، وفی کتاب: الصلاة، باب: في الاستغفار، 2/ 88، الرقم: 1531، والنسائی فی السنن، کتاب: الجمعة، باب: بإکثار الصلاة علی النبی صلی الله عليه واله وسلم يوم الجمعة، 3/ 91، الرقم: 1374، وابن ماجة فی السنن، کتاب: إقامة الصلاة، باب: في فضل الجمعة، 1/ 345، الرقم: 1085.

’’حضرت اَوس بن اَوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: بیشک تمہارے دنوں میں سے جمعہ کا دن سب سے بہتر ہے اس دن حضرت آدم علیہ السلام پیدا ہوئے اور اسی دن انہوں نے وفات پائی اور اسی دن صور پھونکا جائے گا اور اسی دن سخت آواز ظاہر ہو گی۔ پس اس دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو کیونکہ تمہارا درود مجھے پیش کیا جاتا ہے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارا درود آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وصال کے بعد آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کیسے پیش کیا جائے گا؟ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا جسدِ مبارک خاک میں مل چکا ہو گا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: (نہیں، ایسا نہیں ہے) بیشک اللہل نے زمین پر انبیائے کرام کے جسموں کا کھانا حرام کر دیا ہے۔‘‘

اسے امام ابو داود، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

150/ 7. عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ رضی الله عنه : أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم قَالَ: نَحْنُ الْآخِرُوْنَ، وَنَحْنُ السَّابِقُوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَإِنِّي قَائِلٌ قَوْلًا غَيْرَ فَخْرٍ: إِبْرَاهِيْمُ خَلِيْلُ اﷲِ، وَمُوْسَی صَفِيُّ اﷲِ، وَأَنَا حَبِيْبُ اﷲِ، وَمَعِي لِوَاءُ الْحَمْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَإِنَّ اﷲَ ل وَعَدَنِي فِي أُمَّتِي، وَأَجَارَهُمْ مِنْ ثَـلَاثٍ: لَا يَعُمُّهُمْ بِسَنَةٍ، وَلَا يَسْتَأْصِلُهُمْ عَدُوٌّ، وَلَا يَجْمَعُهُمْ عَلَی ضَلاََلةٍ.

رَوَاهُ الدَّارَمِيُّ.

الحديث رقم: أَخرجه الدارمی فی السنن باب: (8) ما أعطِيَ النَّبِيَّ صلی الله عليه واله وسلم من الفضل، 1/ 42، الرقم: 54، والمبارکفوری فی تحفة الأحوذی، 6/ 323.

’’حضرت عمرو بن قیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: ہم آخر میں آنے والے اور قیامت کے دن سب سے آگے ہونے والے ہیں۔ میں بغیر کسی فخر کے یہ بات کہتا ہوں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام خلیل اللہ ہیں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام صفی اللہ ہیں اور میں حبیب اللہ ہوں۔ قیامت کے دن حمد کا جھنڈا میرے ہاتھ میں ہو گا۔ اللہ تعالی نے مجھ سے میری امت کے متعلق وعدہ کر رکھا ہے اور تین باتوں سے اسے (امت کو) بچایا ہے۔ ایسا قحط ان پر نہیں آئے گا جو پوری امت کا احاطہ کر لے اور کوئی دشمن اسے جڑ سے نہیں اکھاڑ سکے گا اور (اللہ تعالیٰ) انہیں گمراہی پر جمع نہیں فرمائے گا۔‘‘

اسے امام دارمی نے روایت کیا ہے۔

151/ 8. عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضی الله عنه في رواية طويلة: قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، کَمِ الْأَنْبِيَاءُ؟ قَالَ: مِائَةَ أَلْفٍ وَعِشْرُوْنَ أَلْفًا قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، کَمِ الرُّسُلُ مِنْ ذَلِکَ؟ قَالَ: ثَـلَاثَ مِائَةٍ وَثَـلَاثَةَ عَشَرَ جَمًّا غَفِيْرًا. قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اﷲِ، مَنْ کَانَ أَوَّلُهُمْ قَالَ: آدَمُ قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، أَنَبِيٌّ مُرْسَلٌ؟ قَالَ: نَعَمْ، خَلَقَهُ اﷲُ بِيَدِهِ وَنَفَخَ فِيْهِ مِنْ رُوْحِهِ وَکَلَّمَهُ قَبْـلًا ثُمَّ قَالَ: يَا أَبَا ذَرٍّ، أَرْبَعَةٌ سَرْيَانِيُوْنَ: آدَمُ، وَشِيْثُ، وَأَخْنُوخُ. وَهُوَ إِدْرِيْسُ وَهُوَ أَوَّلُ مَنْ خَطَّ بِالْقَلَمِ. وَنُوْحٌ، وَأَرْبَعَةٌ مِنَ الْعَرَبِ: هُوْدٌ، وَشُعَيْبٌ، وَصَالِحٌ، وَنَبِيُکَ مُحَمَّدٌ(صلی الله عليه واله وسلم)… الحديث.

رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَأَبُونُعَيْمٍ وَابْنُ عَسَاکِرَ.

الحديث رقم: أَخرجه ابن حبان في الصحيح، 2/ 76. 77، الرقم: 361، وفي الثقات، 2/ 119، وأَبو نعيم في حلية الأَولياء، 1/ 167، وابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 23/ 275، 277، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 1/ 586. 587، والهيثمي في موارد الظمآن، 1/ 53.

’’حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اﷲ، انبیاء کرام علیہم السلام کتنے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: ایک لاکھ بیس ہزار۔ میں نے عرض کیا: ان میں سے رسول کتنے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: تین سو تیرہ (افراد) کا ایک جم غفیر ہے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اﷲ، ان میں سے سب سے پہلے نبی کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: حضرت آدم علیہ السلام۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! کیا وہ نبی مرسل ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: ہاں، اﷲ تعالیٰ نے انہیں اپنے دستِ قدرت سے پیدا فرمایا اور ان میں اپنی روح پھونکی اور اس سے پہلے ان سے کلام فرمایا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اے اباذر، چار نبی سریانی تھے، آدم علیہ السلام، شیث علیہ السلام، اخنوح یعنی ادریس علیہ السلام اور یہ وہ پہلے نبی ہیں جنہوں نے قلم کے ساتھ لکھا اور نوح علیہ السلام، اور چار نبی عربی ہیں: حضرت ھود علیہ السلام، حضرت شعیب علیہ السلام، حضرت صالح علیہ السلام اور تمہارے نبی محمد مصطفی ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) الحدیث۔‘‘

اس حدیث کو امام ابن حبان، ابونعیم اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔

152/ 9. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ: کَانَ بَيْنَ آدَمَ وَنُوْحٍ عَشْرَةُ قُرُوْنٍ کُلُّهُمْ عَلَی شَرِيْعَةٍ مِنَ الْحَقِّ فَلَمَّا اخْتَلَفُوْا بَعَثَ اﷲُ النَّبِيِّيْنَ وَالْمُرْسَلِيْنَ وَأَنْزَلَ کِتَابَهُ فَکَانُوْا أَمَّةً وَاحِدَةً. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.

وَقَالَ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.

وفي رواية: قَالَ: کَانَ بَيْنَ آدَمَ وَنُوْحٍ عَشْرَةُ أَقْرُنٍ کُلِّهَا عَلَی الإِْسْلَامِ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.

وفي رواية: عَنْ أَبِي أَمَامَةَ رضی الله عنه : أَنَّ رَجُـلًا قَالَ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، أَنَبِيُّ آدَمُ؟ قَالَ: نَعَمْ مُکَلَّمٌ، قَالَ: فَکَمْ کَانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ نُوْحٍ؟ قَالَ: عَشْرَةُ قُرُوْنٍ. رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ.

الحديث رقم: أَخرجه ابن حبان في الصحيح، 14/ 69، الرقم: 6190، والحاکم في المستدرک، 2/ 480، الرقم: 3654، وابن أَبي شيبة في المصنف، 7/ 19، الرقم: 33928، وابن حيان في العظمة، 5/ 1593، الرقم: 56، والهيثمي في مجمع الزوائد، 6/ 318.

’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت آدم اور حضرت نوح علیہما السلام کے درمیان دس صدیوں کا (ایک طویل) وقفہ ہے۔ (اس دوران) وہ (تمام لوگ) شریعتِ حق پر تھے، پس جب ان میں اختلافات پیدا ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے انبیاء و مرسلین کو مبعوث فرمایا اور اپنی کتاب نازل فرمائی پھر وہ ایک امت ہو گئے۔‘‘

اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: ’’حضرت آدم اور حضرت نوح علیھما السلام کے درمیان دس صدیوں کا وقفہ ہے اور یہ دس کی دس صدیاں اسلام پر تھیں۔‘‘

اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔

اور ایک روایت میں حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ’’ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ، کیا حضرت آدم علیہ السلام نبی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: ہاں اور ان سے اللہ تعالیٰ نے کلام بھی فرمایا، اس شخص نے عرض کیا: حضرت آدم اور حضرت نوح علیہما السلام کے درمیان کتنا عرصہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: دس صدیاں۔‘‘

اس حدیث کو امام ابن حیان نے روایت کیا ہے۔

153/ 10. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما فِي قَوْلِهِ ل: {وَاذْکُرْ فِي الْکِتَابِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّهُ کَانَ صِدِّيْقًا نَبِيًّا} [مريم، 19: 41]، قَالَ: کَانَ الْأَنْبِيَاءُ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيْلَ إِلَّا عَشْرَةٌ: نُوْحٌ، وَصَالِحٌ، وَهُوْدٌ، وَلُوْطٌ، وَشُعَيْبٌ، وَإِبْرَاهِيْمُ، وَإِسْمَاعِيْلُ، وَإِسْحَاقُ، وَيَعْقُوْبُ وَمُحَمَّدٌ عليهم الصلاة والسلام، وَلَمْ يَکُنْ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ مَنْ لَهُ اسْمَانِ إِلَّا إِسْرَائِيْلَ وَعِيْسَی فَإِسْرَائِيْلُ يَعْقُوْبُ وَعِيْسَی الْمَسِيْحُ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ وَالْبَيْهَقِيُّ.

وَقَالَ الْحاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِْسْنَادِ.

الحديث رقم: أَخرجه الحاکم في المستدرک، 2/ 405، الرقم: 3415، والطبراني في المعجم الکبير، 11/ 276، الرقم: 11723، والبيهقي في شعب الإيمان، 1/ 150، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 1/ 188، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8/ 210.

’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: ’’اور اس کتاب میں ابراہیم کا ذکر کر بے شک وہ سچے اور نبی تھے۔‘‘ کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ سارے کے سارے انبیاء کرام علیہم السلام بنی اسرائیل میں سے تھے سوائے دس انبیاء کرام علیہم السلام کے اور وہ یہ ہیں: حضرت نوح، حضرت صالح، حضرت ہود، حضرت لوط، حضرت شعیب، حضرت ابراہیم، حضرت اسماعیل، حضرت اسحاق، حضرت یعقوب علیہم السلام اور سیدنا محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم۔ انبیاء کرام علیہم السلام میں سے سوائے حضرت اسرائیل اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام کے کسی کے دو نام نہیں تھے۔ پس اسرائیل علیہ السلام کا دوسرا نام یعقوب اور عیسیٰ علیہ السلام کا دوسرا نام مسیح تھا۔‘‘

اس حدیث کو امام حاکم اور طبرانی نے ثقات رجال کے ساتھ روایت کیا اور بیہقی نے بھی اسے روایت کیا ہے اور امام حاکم کہتے ہیں یہ حدیث صحیح ہے۔

154/ 11. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما أَنَّ النَّبِيَّ رضی الله عنه لَمَّا رَأَی الصُّوَرَ فِي الْبَيْتِ لَمْ يَدْخُلْ حَتَّی أَمَرَ بِهَا فَمُحِيَتْ، وَرَأَی إِبْرَاهِيْمَ وَإِسْمَاعِيْلَ عليهما السلام بِأَيْدِيهِمَا الْأَزْلَامُ فَقَالَ: قَاتَلَهُمُ اﷲُ وَاﷲِ، إِنِ اسْتَقْسَمَا بِالْأَزْلَامِ قَطُّ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ رَاشِدٍ.

وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.

الحديث رقم: أَخرجه الحاکم في المستدرک، 2/ 599، الرقم: 4019، والطبراني في المعجم الکبير، 11/ 314، الرقم: 11845، وابن راشد في الجامع، 10/ 398، والعظيم آبادي في عون المعبود، 11/ 141، والشوکاني في نيل الأَوطار، 2/ 98.

’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جب خانہ کعبہ میں (دیواروں پر بنی) تصویریں دیکھیں تو اس میں داخل نہ ہوئے یہاں تک کہ ان تصویروں کو آپ کے حکم سے وہاں سے ہٹا دیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام کو (تصویر میں) دیکھا کہ آپ کے ہاتھوں میں جوئے کے تیر ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: ان (مشرکین) کو اللہ تعالیٰ ہلاک کرے۔ اﷲ رب العزت کی قسم، ان دونوں (حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام) نے کبھی بھی جوئے کے تیروں کے ذریعے تقسیم نہیں چاہی۔‘‘

اس حدیث کو امام حاکم، طبرانی اور ابن راشد نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

155/ 12. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ: جَاءَ إِبْرَاهِيْمُ عليه السلام فَوَجَدَ إِسْمَاعِيْلَ يُصْلِحُ لَهُ بَيْتًا مِنْ وَرَاءِ زَمْزَمَ فَقَالَ لَهُ إِبْرَاهِيْمُ: يَا إِسْمَاعِيْلُ، إِنَّ رَبَّکَ قَدْ أَمَرَنِي بِبَنَاءِ الْبَيْتِ. فَقَالَ لَهُ إِسْمَاعِيْلُ: فَأَطِعْ رَبَّکَ فِيْمَا أَمَرَکَ. قَالَ فَأَعِنِّي عَلَيْهِ. قَالَ: فَقَامَ مَعَهُ فَجَعَلَ إِبْرَاهِيْمُ يَبْنِيْهِ وَإِسْمَاعِيْلُ يُنَاوِلُهُ الْحِجَارَةَ وَيَقُوْلَانِ: {رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمِ}، [البقرة، 2: 127]. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرِيُّ.

وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.

الحديث رقم: أَخرجه الحاکم في المستدرک، 2/ 601، الرقم: 4025، والطبري في جامع البيان، 1/ 550، 13/ 232، وفي تاريخ الأَمم والملوک، 1/ 156.

’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام تشریف لائے تو حضرت اسماعیل علیہ السلام کو آبِ زمزم کے اس پار اپنے گھر کی مرمت کرتے ہوئے پایا۔ پس حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: اے اسماعیل! بے شک تمہارے رب نے مجھے بیت اللہ کی تعمیر کا حکم دیا ہے۔ یہ سن کر حضرت اسماعیل علیہ السلام نے عرض کیا: آپ اپنے رب کے حکم کی اطاعت کیجئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: تم اس کام میں میری مدد کرو۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام آپ کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے سو حضرت ابراہیم علیہ السلام گھر بناتے جاتے اور حضرت اسماعیل علیہ السلام آپ کو پتھر پکڑاتے جاتے اور دونوں یہ کہتے جاتے: ’’اے ہمارے ربّ ہم سے (ہمارا یہ عمل) قبول فرما، بے شک تو سننے والا اور جاننے والا ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام حاکم اور طبری نے روایت کیا ہے نیز امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

156/ 13. عَنْ کَعْبٍ رضی الله عنه قَالَ: کَانَ صَالِحٌ نَبِيَّ اﷲِ وَکَانَ يُشْبِهُ بِعِيْسَی بْنِ مَرْيَمَ أَحْمَرُ إِلَی الْبَيَاضِ مَا هُوَ سَبْطُ الرَّأْسِ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.

الحديث رقم: أَخرجه الحاکم في المستدرک، 2/ 616، الرقم: 4066.

’’حضرت کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت صالح علیہ السلام اﷲ تعالیٰ کے نبی تھے اور حضرت عیسیٰ بن مریم علیھما السلام کے مشابہ تھے اور سفیدی مائل سرخ تھے، آپ کے بال سیدھے نہیں تھے۔‘‘

اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے۔

157/ 14. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم: إِنَّ اﷲَ اصْطَفَی مُوْسَی بِالْکَلَامِ وَإِبْرَاهِيْمَ بِالْخُلَّةِ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.

وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.

الحديث رقم: أَخرجه الحاکم في المستدرک، 2/ 629، الرقم: 4098، والسيوطي في الجلالين، 1/ 371.

’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: بے شک اﷲ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنے ساتھ ہم کلام ہونے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنی دوستی کے لئے چنا۔‘‘

اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا اور فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

158/ 15. عَنْ کَعْبٍ رضی الله عنه قَالَ: کَانَ إِلْيَاسُ نَبِيُّ اﷲِ صَاحِبَ جِبَالٍ بَرِيَةٍ يَخْلُو فِيْهَا يَعْبُدُ رَبَّهُ وَکَانَ ضَخْمَ الرَّأَسِ خَمِيْصَ الْبَطْنِ دَقِيْقَ السَّاقَيْنِ وَکَانَ فِي رَأَسِهِ شَامَّةٌ حَمْرَاءُ وَإِنَّمَا رَفَعَهُ اﷲُ إِلَی أَرْضِ الشَّامِ وَلَمْ يَصْعَدْ بِهِ السَّمَاءَ فَأَوْرِثَ الْيَسْعُ مِنْ بَعْدِهِ النُّبُوَّةَ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.

الحديث رقم: أَخرجه الحاکم في المستدرک، 2/ 637، الرقم: 4119.

’’حضرت کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت الیاس علیہ السلام اﷲ تعالیٰ کے نبی اور بریہ پہاڑوں کے مالک تھے جن میں آپ اﷲ تعالیٰ کی عبادت کے لئے خلوت اختیار کرتے آپ بڑے سر مبارک والے، خالی پیٹ والے، پتلی پنڈلیوں والے تھے اور آپ کے سر میں سرخ رنگ کا ایک نشان تھا۔ اﷲ تعالیٰ آپ کو ارض شام کی طرف اٹھا کر لے گیا اور آپ کو آسمان کی طرف نہیں اٹھایا اور آپ کے بعد حضرت یسع علیہ السلام کو نبوت عطا فرمائی۔‘‘

اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے۔

159/ 16. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما: أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم أَتَی عَلَی وَادِي الْأَزْرَقِ فَقَالَ: مَا هَذَا؟ قَالُوا: وَادِي الْأَزْرَقِ. فَقَالَ: کَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَی مُوْسَی بْنِ عِمْرَانَ مَهْبَطًا لَهُ خَوَارٌ إِلَی اﷲِ بِالتَّکْبِيْرِ. ثُمَّ أَتَی عَلَی ثِنْيَةَ فَقَالَ: مَا هَذِهِ الثِّنْيَةُ؟ قَالُوا: ثِنْيَةُ کَذَا وَکَذَا. فَقَالَ: کَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَی يُوْنُسَ بْنِ مَتَّی عَلَی نَاقَةٍ حَمْرَاءَ جَعْدَةٍ خِطَامُهَا لِيْفٌ وَهُوَ يُلَبِّي وَعَلَيْهِ جُبَّةُ صُوْفٍ.

رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَأَبُونُعَيْمٍ وَالْحَاکِمُ وَاللَّفْظُ لَهُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.

وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.

الحديث رقم: أَخرجه ابن حبان في الصحيح، 14/ 103، الرقم: 6219، والحاکم في المستدرک، 2/ 373، 638، الرقم: 3313، 4123، والطبراني في المعجم الکبير، 12/ 159، الرقم: 12756، وأبونعيم في حلية الأولياء، 2/ 223، 3/ 96، والبيهقي في شعب الإيمان، 3/ 440، الرقم: 4004.

’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم وادء ازرق کی طرف تشریف لائے اور فرمایا: یہ کیا ہے؟ صحابہ کرام نے عرض کیا: یہ وادء ازرق ہے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: گویا کہ میں موسیٰ بن عمران علیہ السلام کی طرف دیکھ رہا ہوں کہ وہ اس وادی میں اتر رہے ہیں اﷲ تعالیٰ کی کبریائی بیان کر رہے ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ایک پہاڑی راستے کی طرف تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دریافت فرمایا: یہ کون سا پہاڑی راستہ ہے؟ صحابہ کرام نے عرض کیا: یہ فلاں فلاں پہاڑی راستہ ہے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: گویا میں حضرت یونس بن متی علیہ السلام کو سرخ گنگریالے بالوں والی اونٹنی پر بیٹھا ہوا دیکھ رہا ہوں۔ اس اونٹنی کی لگام کھجور کی چھال کی ہے اور آپ تلبیہ کہہ رہے ہیں اور آپ نے اون کا جبہ زیب تن کیا ہوا ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام ابن حبان، حاکم، طبرانی، ابونعیم اور بیہقی نے روایت کیا اور امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے اور مذکورہ الفاظ ان کے ہیں۔

160/ 17. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اﷲ عنهما: أَنَّهُ قَالَ: لَقَدْ سَلَکَ فَجَّ الرَّوْحَاءِ سَبْعُوْنَ نَبِيَا حُجَّاجًا عَلَيْهِمْ ثِيَابُ الصُّوْفِ وَلَقَدْ صَلَّی فِي مَسْجِدِ الْخَيْفِ سَبْعُوْنَ نَبِيًّا. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْبَيْهَقِيُّ.

وفي رواية: عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : فِي مَسْجِدِ الْخَيْفِ قَبْرُ سَبْعِيْنَ نَبِيًّا.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْفَاکِهِيُّ وَالْبَزَّارُ وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ.

الحديث رقم: أَخرجه الحاکم في المستدرک، 2/ 653، الرقم: 4169، والبيهقي في السنن الکبری، 5/ 177، الرقم: 9618، والطبراني في المعجم الکبير، 12/ 474، الرقم: 13525، والفاکهی في أَخبار مکة، 4/ 266، الرقم: 2594، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3/ 297، وقال: روه البزار ورجاله ثقات، والمناوي في فيض القدير، 4/ 459.

’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ روحاء کے راستے پر ستر انبیاء کرام علیہم السلام حج کی غرض سے گزرے ہیں جو اون کے کپڑے زیب تن کیے ہوئے تھے اور مسجد خیف میں ستر انبیاء علیہم السلام نے نماز ادا کی۔‘‘

اس حدیث کو امام حاکم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: مسجد خیف میں ستر انبیاء کرام علیہم السلام کے مزارات ہیں۔‘‘

اسے امام طبرانی، فاکہی اور بزار نے روایت کیا نیز اس کے رجال ثقہ ہیں۔

وفي رواية عنه: قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : صَلََّی فِي الْمَسْجِدِ الْخَيْفِ سَبْعُوْنَ نَبِيًّا مِنْهُمْ مُوْسَی عليه السلام کَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ وَعَلَيْهِ عِبَاءَ تَانِ قِطْوَانِيَتَانِ وَهُوَ مُحْرَمٌ عَلَي بَعِيْرٍ مِنْ إِبِلِ شَنُوَّةَ مَخْطُوْمٌ بِخُطَامِ لِيْفٍ لَهُ ضِفْرَانٍ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَأَبُونُعَيْمٍ وَالْفَاکِهِيُّ.

الحديث رقم: أَخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 11/ 452، الرقم: 12283، وأَبو نعيم في حلية الأَولياء، 2/ 10، وابن عدي في الکامل، 6/ 58، والفاکهي في أَخبار مکة، 4/ 266، الرقم: 2593، والذهبي في ميزان الاعتدال، 5/ 494، والديلمي في مسند الفردوس، 2/ 392، الرقم: 3740، والمقدسي في الأَحاديث المختارة، 10/ 292، الرقم: 319، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2/ 117، الرقم: 1736، وابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 61/ 167، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3/ 221، 297، وقال: روه البزار ورجاله ثقات.

’’اور آپ ہی سے مروی ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: مسجد خیف میں ستر انبیاء کرام علیہم السلام نے نماز ادا کی جن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی شامل تھے، گویا میں ان کی طرف دیکھ رہا ہوں اور ان پر دو قطوانی چادریں تھیں اور وہ حالتِ احرام میں قبیلہ شنوہ کے اونٹوں میں سے ایک اونٹ پر سوار تھے جس کی نکیل کھجور کی چھال کی تھی جس کی دو رسیاں تھیں۔‘‘

اس حدیث کو امام طبرانی، ابو نعیم اور فاکہی نے روایت کیا ہے۔

161/ 18. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : الْأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُوْرِهِمْ يُصَلُّوْنَ. رَوَاهُ أَبُو يَعْلَی وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ وَابْنُ عَدِيٍّ وَالْبَيْهَقِيُّ.

وَقَالَ ابْنُ عَدِيٍّ: وَأَرْجُو أَنَّهُ لَا بَأَسَ بِهِ.

والعسقلاني في الفتح وقال: قد جمع البيهقي کتابًا لطيفًا في حياة الأَنبياء في قبورهم أَورد فيه حديث أَنس رضی الله عنه : الأَنبياء أَحياء في قبورهم يصلّون. أَخرجه من طريق يحيی بن أَبي کثير وهو من رجال الصحيح عن المستلم بن سعيد وقد وثّقه أَحمد وابن حبّان عن الحجاج الأَسود وهو بن أَبي زياد البصري وقد وثّقه أَحمد وابن معين عن ثابت عنه وأَخرجه أَيضاً أَبو يعلی في مسنده من هذا الوجه وأَخرجه البزار وصحّحه البيهقي.

الحديث رقم: أَخرجه أَبو يعلی في المسند، 6/ 147، الرقم: 3425، وابن عدي في الکامل، 2/ 327، الرقم: 460، وقال: هذا أَحاديث غرائب حسان وأَرجو أَنه لا بأَس به، والديلمي في مسند الفردوس، 1/ 119، الرقم: 403، والعسقلاني في فتح الباري، 6/ 487، وفي لسان الميزان، 2/ 175، 246، الرقم: 787، 1033، وقال: روه البيهقي، وقال: ابن عدي: أَرجو أَنه لا بأَس به، والذهبي في ميزان الاعتدال، 2/ 200، 270، وقال: روه البيهقي، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8/ 211، وقال: روه أَبو يعلی والبزار، ورجال أَبي يعلی ثقات، والسيوطي في شرح علی سنن النسائي، 4/ 110، والعظيم آبادي في عون المعبود، 6/ 19، وقال: وأَلفت عن ذلک تأَليفا سميته: انتبه الأَذکياء بحياة الأَنبياء، والمناوي في فيض القدير، 3/ 184، والشوکاني في نيل الأَوطار، 5/ 178، وقال: فقد صححه البيهقي وأَلف في ذلک جزء ا، والزرقاني في شرح علی موطأَ الإمام مالک، 4/ 357، وقال: وجمع البيهقي کتابا لطيفا في حياة الأَنبياء وروی فيه بإسناد صحيح عن أَنس رضی الله عنه مرفوعا.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: انبیاء کرام علیہم السلام اپنی اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز پڑھتے ہیں۔‘‘

اس حدیث کو امام ابویعلی نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال ثقہ ہیں اور اس حدیث کو امام ابن عدی اور بیہقی نے بھی روایت کیا ہے اور امام ابن عدی نے فرمایا کہ اس حدیث کی سند میں کوئی نقص نہیں ہے۔

Share: