شادی والی حدیث

جھوٹا یا سچا واقعہ
1۔ ایک بندے نے کہا کہ جناب شادی کرنے سے رزق میں اضافہ ہوتا ہے تو اُس سے کہا گیا کہ حضورﷺ نے فرمایا ہے کہ اگر استطاعت ہو تو نکاح کرو ورنہ روزے رکھو۔ اُس نے کہا میں نے ایک مولوی صاحب سے سُنا ہے کہ حضور ﷺ کے پاس ایک صحابی آئے اور عرض کی یا رسول اللہﷺ میرے رزق میں بہت کمی ہے تو حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا تم شادی کر لو۔ اُس نے شادی کر لی لیکن رزق کی کمی دور نہ ہوئی تو پھر حضورﷺ کے آگے عرض کی تو حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: ایک اور شادی کر لو تو اُس صحابی نے ایک اور شادی کر لی مگر رزق میں کمی دور نہ ہوئی۔ اُس نے پھر حضورﷺ سے عرض کی تو حضورﷺ نے اُس کو تیسری شادی کرنے کا حُکم دیاتو اُس نے تیسری عورت سے نکاح کیا تو وہ عورت مالدار تھی، اُس بندے کے رزق میں اضافہ ہو گیا۔
2۔ اب ہم نے علماء کرام اور مفتیان عظام سے پوچھا کہ ایسے کونسے صحابی تھے جنہوں نے یہ شادیاں کرنے والا وظیفہ کیا ہے؟ علماء کرام نے بھی کہا کہ ایسا کوئی واقعہ نہیں ہے تو اُس بندے نے کہا کہ میں نے خود مولوی کی زبان سے یہ واقعہ سُنا ہے، کیا مولوی جھوٹ بولتے ہیں؟
یہ ہمارا مسئلہ ہے کہ ہم ہر داڑھی والے کو علم والا سمجھتے ہیں جیسے واقعہ مشہور ہے کہ ملادو پیازہ سے کسی نے مسئلہ پوچھا تو اُس نے کہا کہ مجھے مسئلے کا علم نہیں تو اب پوچھنے والے نے مذاق اُڑایا کہ اتنا بڑا پگڑ (دستار) سر پر باندھا ہے مگر تجھے علم نہیں۔ ملا دو پیازہ نے کہا کہ اگر دستار سر پر رکھنے سے علم آتا ہے تو اُس نے وہ دستار سوال پوچھنے والے کے سر پر رکھ دی اور کہا کہ اب تو مجھے مسئلے کاجواب دے مگر وہ بات سمجھ کر خاموش ہو گیا۔
3۔ البتہ ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایک شخص حضورﷺ کے پاس آیا اور اپنے فقر و فاقہ کی شکایت کی تو آپﷺ نے اسے شادی کرنے کا حُکم فرمایا (خطیب بغدادی: تاریخ بغداد، 1:365، رقم:307بیروت، دارالعرب الاسلامی)۔ البتہ امام ذہبی نے میزان الاعتدال فی نقد الرجال اور ابن حجر عسقلانی نے لسان المیزان میں اس روایت کو ناقابل اعتبار قرار دیا ہے۔
4۔ہم نے ساری زندگی تحقیق پر لگانی ہے اور جیسے جیسے جس مسئلے پر تحقیق مکمل ہوتی جائے وہی اپنی نسلوں کو سکھانا ہے کیونکہ اب صرف علماء نے کام نہیں کرنا بلکہ عوام نے بھی کوشش کرنی ہے کیونکہ یہاں عالم و عوام سب مجبور نظر آ رہے ہیں۔ اسلئے ہماری تحقیق کے مطابق اہلتشیع مذہب بے بنیاد ہے، اُس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ انہوں نے علیحدہ ڈیپلیکیٹ ”علی“ تیار کیا ہوا ہے جس کا اہلسنت کے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اہلبیت، بارہ امام سے انہوں نے کوئی علم نہیں لیا، اسلئے ان کی کوئی تفسیر، احادیث وغیرہ معتبر نہیں ہیں۔ دوسرا یہ کہ اہلتشیع حضرات اہلسنت کی کمزورروایات سے عوام کو بے ایمان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
5۔ 625سالہ سلطنت عثمانیہ ترکی پر جب سے پابندی لگی اور 1924میں سعودی عرب کے وہابی علماء نے مزارات ڈھانے کے بعد اہلسنت علماء کو بدعتی و مشرک کا نعرہ لگایا تو اب سعودی عرب کے اس ایجنڈے پر جتنے دیوبندی، وہابی، سلفی، توحید، محمدی، اہلحدیث ہیں، اُن کو دعوت ہے کہ سعودی عرب کے وہابی علماء یا امام کعبہ کے ہاتھ پر بیعت کر کے ایک گروپ بنائیں۔ دیوبندی پیری مریدی تعویذ دھاگے سے توبہ کریں اور اصل حقائق عوام کو بتائیں۔
6۔ پاکستان میں مزارات کے طریقے کار سے ہمیں اختلاف ہے، اسلئے اہلحدیث، دیوبندی، بریلوی علماء سب سے عرض ہے کہ فتاوی رضویہ کے مطابق عقائد اہلسنت و اعمال مسلمانوں کو سکھائیں البتہ مزارات پر جو کچھ ہو رہا ہے اُس کے ذمہ دار سب ہوں گے جنہوں نے آپس کی لڑائی میں حق چھپایا ہے.