توبہ اور استغفار میں فرق
سورہ ھود میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
وَّاَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْهِ یُمَتِّعْکُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا.
هود، 11: 3
’’اور یہ کہ تم اپنے رب سے مغفرت طلب کرو پھر تم اس کے حضور (صدق دل سے) توبہ کرو وہ تمہیں وقت معین تک اچھی متاع سے لطف اندوز رکھے گا۔‘‘
اس آیت میں دونوں چیزوں کو واضح طور پر الگ کردیا گیا ہے جب تم استغفار اور اللہ کی طرف توبہ بھی کرو گے تو اللہ تمہیں آخرت کا بہت اچھا سامان عطا فرمائے گا مزید سورہ ھود میں سیدنا ھود علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا:
یُرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا.
هود، 11: 52
’’وہ تم پر آسمان سے موسلادھار بارش بھیجے گا۔‘‘
سورہ ھود میں حضرت صالح علیہ السلام کا ارشاد بیان کیا گیا ہے انہوں نے اپنی قوم کو نصیحت کی:
فَاسْتَغْفِرُوْهُ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْهِط اِنَّ رَبِّیْ قَرِیْبٌ مُّجِیْبٌ.
هود، 11: 61
’’سو تم اس سے معافی مانگو پھر اس کے حضور توبہ کرو۔ بے شک میرا رب قریب ہے دعائیں قبول فرمانے والا ہے۔‘‘
سیدنا شعیب علیہ السلام کی زبان سے کہلوایا۔
وَاسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْهِ اِنَّ رَبِّیْ رَحِیْمٌ وَّدُوْدٌ.
هود،11: 90
’’اور تم اپنے رب سے مغفرت مانگو پھر اس کے حضور (صدق دل سے) توبہ کرو، بے شک میرا رب نہایت مہربان محبت فرمانے والا ہے۔‘‘
ان چاروں آیت مبارکہ میں دو حکم آئے ہیں پہلا حکم استغفار کا ہے اور دوسرا توبہ کا ہے۔ ہم اپنے معمول میں توبہ استغفار اکٹھا بول دیتے ہیں۔ ہمارے ذہنوں میں تصور یہ ہوتا ہے کہ یہ دونوں ایک ہی چیز کے دو نام ہیں حقیقت یہ ہے کہ استغفر پہلا اور توبہ اسی عمل کے اندر دوسرا قدم ہے۔ جب انسان گناہ کرتا ہے پھر وہ توبہ کی طرف راغب ہوتا ہے یہ مراحل ہیں ورنہ وہ گناہ پر گناہ کرتا چلا جائے اور اسے اپنے ڈوبنے کا شعور بھی نہیں ہو۔ گناہ کرنے کے بعد آدمی ترتیب کے ساتھ استغفار اور پھر توبہ کرتا ہے تو یہ اللہ کی توفیق سے ہوتا ہے۔
اقسامِ توبہ
جب بندہ توبہ کرتا ہے تووہ ایک نہیں تین قسموں کی توبہ ہوتی ہے۔ بندے کی توبہ درمیان میں ہوتی ہے اس کے آگے پیچھے دو قسموں کی توبہ اور ہوتی ہے۔ پہلی اور آخری توبہ نے بندے کو اپنے دائرے میں گھیرا ہوتا ہے۔ وہ اللہ رب العزت کی توبہ ہے جب بندے کی توبہ کا ذکر کرتے ہیں تو اس سے مراد توبہ کرنے والا۔ جب اللہ کی توبہ کا ذکر ہے اس کا مطلب بندے کی توبہ قبول فرمانے والا۔
گناہ اتنا بڑا ظلم نہیں لیکن گناہ کرکے توبہ نہ کرنا زیادہ بڑا ظلم ہے۔ اللہ رب العزت نے انسان کو فرشتوں کی خلقت سے مختلف بنایا ہے اس کی خلقت میں گنجائش تھی کہ اس سے خطا ہوسکتی ہے اگر اسے گناہ سے پاک بنانا ہوتا تو اسے انسان کی بجائے فرشتہ بنادیتا اس لیے اللہ بھی بندے سے یہ توقع نہیں کرتا کہ اس سے نہ کبھی گناہ سرزد نہیں ہوگا اگر کوئی خطا سرزد ہوتو وہ فوری اس گناہ پر شرمندگی اختیار کرے، اب اگر اس سے نادم ہو اور گناہ کے چھوڑ دینے کا عزم کرلے اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو اس کو ظالم کہا گیا ہے جیسا کہ سورۃ الحجرات میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓـئِکَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ.
الحجرات، 49: 11
’’اور جس نے توبہ نہیں کی سو وہی لوگ ظالم ہیں۔‘‘
یعنی گناہ کا لفظ معصیت، نافرمانی اور ظلم کے لیے استعمال ہوا ہے۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
جو گناہ کر بیٹھتے ہیں اور میری طرف رجوع نہیں کرتے درحقیقت وہی ظالم ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ نے تائب کو ایک طرف کھڑا کردیا اور ظالم کو جدا کرکے دوسری طرف کھڑا کردیا وہ گناہ کرنے والا جونہی اس نے توبہ کی وہ ظالم نہ رہا۔ جب سیدنا آدم علیہ السلام سے خطاء سر زد ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو یہ کلمات سکھائے:
رَبَّنَا ظَلَمْنَـآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ.
الاعراف، 7: 23
’’اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اگر تو نے ہم کو نہ بخشا اور ہم پر رحم (نہ) فرمایا تو ہم یقینا نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔‘‘
حضرت آدم علیہ السلام نے کہا کہ اے اللہ تو نے ہمیں جس درخت کا پھل کھانے سے منع کیا ہم وہ کھا بیٹھے۔
اگر تو ہمیں بخشش کے پردے سے نہ ڈھانپے، اپنی رحمت کے پانی سے نہ دھوئے تو ہم نقصان اٹھانے والے ہوجائیں گے۔ یہاں حضرت آدم علیہ السلام یہ کہہ کر استغفار اور توبہ کو جمع کیا کہ ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کرلیا اب ہم تیری طرف راجع، راغب اور تائب ہیں تجھ سے بخشش و مغفرت مانگتے ہیں اگر تو نے بخشش ومغفرت اور رحمت ہم پر کردی تو ہم ظالم نہیں رہیں گے اور آخر میں عرض کیا کہ اگر تونے اپنی بخشش و رحمت نہ فرمائی پھر ہم یقینا نقصان اٹھانے والوں میں ہوں گے۔
اسی طرح سورۃ توبہ میں تین طرح کی توبہ جمع ہے۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
ثُمَّ تَابَ عَلَیْهِمْ لِیَتُوْ بُوْاط اِنَّ اﷲَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ.
التوبة، 9: 118
’’بے شک اﷲ ہی بڑا توبہ قبول فرمانے والا،نہایت مہربان ہے۔‘‘
جنہوں نے گناہ کئے اور گناہ کرنے کے بعد مایوس ہوگئے تو انہیں احساس ہوا کہ اللہ کی طرف سے ان کے لیے چھٹکارے، نجات اور فلاح کا کوئی راستہ نہیں یعنی گناہ کرنے کے بعد اللہ کی بخشش پر مایوس ہونا یہ گناہ سے بھی بڑا گناہ ہے اور مایوسی اس کو تائب نہیں ہونے دیتی اس وقت اللہ نے ان پر توبہ فرمائی۔
اس کا مطلب ہوا اللہ نے ان کی طرف رجوع فرمایا تاکہ یہ گناہ گار بندے اللہ کے حضور توبہ کریں اس کو ہدایت التوفیق اور ہدایت التہسیل بھی کہتے ہیں کہ بندے پر توبہ کرنا آسان کردیا۔ بندہ غفلت کی نیند سویا ہوا تھا جاگ نہیں رہا تھا۔ اسے اپنے گناہ کا اندازہ ہی نہیں تھا کہ وہ کتنا ہیبت ناک تھا جو اس کی آخرت کو کتنا تباہ کردے گا، اس کا دل کتنا سیاہ ہوتا جارہا ہے۔
گناہ کے اثرات
گناہ کرنے کے بعد بندہ محسوس کرے کہ میرے اندر عبادت کی رغبت نہیں رہی وہ عبادت سے جی چرارہا ہے اور اگر عبادت کرتا بھی ہے تو لذت نہیں ملتی۔ جونہی بندہ یہ محسوس کرے تو اپنی فوری گرفت کرے اور سمجھے کہ کچھ سرزد ہوگیا ہے۔
اگر فرق نہیں محسوس کرتا تو دو باتیں ہیں یا تقویٰ، پرہیزگاری، اہل استقامت بھی اپنے اعمال کو کم درجہ دیکھتے ہیں پھر توبہ کرتے ہیں تاکہ درجہ بلند ہو۔ پس استقامت ہے یا معصیت ہے۔ اب استقامت کا بلند درجہ بہت کم نصیب ہوتا ہے۔ عامۃ الناس کا حال معصیت اور غفلت کا ہوتا ہے۔ گناہگاری، نافرمانی اور غفلت ساتھ جڑ جاتی ہیں۔ آدمی اس بہائو میں بہتا چلا جاتا ہے وہ اپنے کاموں میں لگا رہتا ہے وہ اپنے عمل کا روحانی ٹمپریچر چیک نہیں کرتا۔ ٹمپریچر چیک کا طریقہ بہت آسان بتادیا۔ کسی کے پاس جاکر پوچھنے کی ضرورت نہیں ہر شخص کے پاس inbuilt تھرما میٹر ہے اگر نماز پڑھتے ہوئے اس میں لذت حلاوت، دلجمعی، خشوع و خضوع میں ہے تو اللہ کا شکر ادا کریں۔ اگر کم ہے تو بیدار ہوجائیں اور کچھ ہوگیا ہے۔
اگر ہمیں چھوٹا سا عارضہ بھی لاحق ہوتا ہے تو فوری اس کا نوٹس لیتے ہیں لہذا جس طرح ہم جسمانی تکالیف سے لاپرواہ نہیں ہوتے اس طرح روحانی عوارض سے آگاہ رہنا چاہئے۔ یہ ابتدائی حالت ہے جب آدمی گناہ سے تائب نہیں ہوتا تو اس کے اثرات ہوتے ہیں تو غفلت اور بڑھتی ہے تو عمل چھوٹ جاتا ہے۔ نماز چھوٹ جاتی ہے پہلے یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ نماز چھوٹ جائے اگر چھوٹ جاتی سکون ہی نہیں آتا تھا۔ پریشان ہوتے کہ میری نماز رہ گئی۔ اب نماز چھوٹ جائے تو بے چینی بھی نہیں ہوتی اس کا مطلب گناہ کے اثرات بڑھ رہے ہیں۔
اس کو سلوک و تصوف کی اصطلاح میں ترک اطاعت بھی کہتے ہیں کہ اگر نیکی کا عمل ترک ہوجائے اس کا مطلب یہ ہے گناہ، معصیت اور نافرمانیوں نے اپنا اثر کرنا شروع کردیا ہے اور وہ بڑھ رہا ہے، دل سیاہ ہورہا ہے۔ گویا کہ دل مردہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ اس سے پہلے دل صحت مند تھا۔ ہر وقت اطاعت میں خوشی ہوتی تھی۔ جوں جوں اطاعت کی لذت کم ہوتی گئی۔ دل بیمار ہوتا چلا گیا۔ گناہ پر شرمندگی اور بے چینی کم ہوتی گئی تو دل اور بیمار ہوتا چلا گیا۔
حتی کہ بے چینی ہونا بند ہوگئی تو دل مردہ ہوگیا تو کبھی دل صحت مند کبھی مریض اور کبھی مردہ ہوتا ہے۔
استغفار اور توبہ میں فرق
اللہ نے جس کام کو کرنے کا حکم فرمایا اس کو نہ کرنا گناہ ہے۔ ہر وہ شے جس کو اللہ پاک نے چھوڑنے کا حکم دیا اس کو نہ چھوڑنا گناہ ہے۔ امر ونہی دو چیزیں اس مرتبہ میں ہیں لہذا گناہ کبھی بڑا اور کبھی چھوٹا ہوتا ہے بڑا ہو تو کبائر میں آتا ہے۔ چھوٹا ہے تو صغائر میں آتا ہے۔ گناہ کے بعد اللہ سے معافی مانگنے کو استغفار کہتے ہیں۔
معافی مانگنا یہ ہے کہ زبان سے کلمہ معافی طلب کرنا، دل سے اس پر نادم ہونا اور بدن سے عملاً چھوڑ دینا یہ استغفار کے تین درجے ہیں۔ یہ تین جزو ملیں تو کاملاً استغفار بنتا ہے۔ عامۃ الناس کثرت گناہ کے بعد توبہ کرتے ہیں۔ جبکہ مومن کی توبہ یہ ہے کہ ہر لمحہ اللہ کی طرف راغب، راجع اور تائب رہتا ہے۔ توبہ دراصل ایک دائمی کیفیت ہے۔
اگر گناہ سے شرمندہ ہوئے اور گناہ سے جدا ہوگئے تو استغفار ہوا۔ استغفار یہ ہے کہ صرف دروازے پر کھڑے ہیں معافی مانگ لی اور گناہ کو چھوڑ دیا۔ جب کہ توبہ یہ ہے کہ جیسے گناہ کیا تھا اب شرمندہ ہوکر چھوڑ دیا ہے ویسے اللہ کی بندگی کی طرف پلٹ گئے۔ اس رجوع کو توبہ کہتے ہیں۔ گناہ چھوڑنے کو توبہ نہیں کہتے۔ گناہ سے معافی مانگنا توبہ نہیں یہ استغفار ہے۔ نیکی، اطاعت اور تقویٰ کی طرف پلٹ جانے کو توبہ کہتے ہیں۔
اللہ رب العزت کے کرم کا اندازہ اس سے ہوتا ہے وہ کتنا رحیم کریم اور تواب ہے کہ بندہ گناہ کرتا ہے وہ چاہتا ہے کہ گناہ کے بعد نہ گناہ کا نقصان رہے بلکہ نفع میں بھی چلے جائے۔ جیسے موٹر سائیکل چلاتے ہوئے ہیلمٹ پہنتے ہیں اس کو عربی میں مغفر کہتے ہیں۔ مغفر، مغفرت اور غفر سے ہے۔
گناہ سے معافی مانگ کر مغفر تو پہن لیا مگر شیطان پر حملہ نہ کرسکے مگر جب توبہ کی گویا تو شیطان پر حملہ کردیا۔
پس اللہ چاہتا ہے کہ ایسے کمزور نہ بنو کہ شیطان ہی تم پر حملہ کرتا رہے۔ معافی مانگ کر اس نقصان کا ازالہ ہی کرتے رہو اس طرح تو شیطان چڑھائی کرتا رہے گا۔ بلکہ شیطان پر حملہ کرنے والے بھی بنو۔ استغفار اس طرح ہے جیسے ہاکی یا فٹ بال کھیلتے ہیں۔ ایک ٹیم کے اوپر ایک طاقتور ٹیم کا ہر وقت پریشر رہتا ہے۔ باکسنگ میں بھی ایسا ہوتا ہے دو باکسر لڑتے ہیں ایک طاقتور اور دوسرا کمزور ہے اور طاقتور ہر وقت حملہ کرنے کی تلاش میں ہے۔ کمزور صرف رنگ کے ساتھ لگ کر دفع ہی کرتا رہتا ہے۔ وہ اس کے حلقے میں آکر حملہ کرتا رہتا ہے۔ ہاکی میں کمزور ٹیم پر پریشر رہتا ہے جو دفاع کرتے رہتے ہیں یہ استغفار ہے۔ توبہ یہ ہے کہ پریشر بڑھا کر شیطان پر حملہ آور ہونا۔ شیطان پر حملہ کیا ہے؟ نیکی کرنا، سجدے میں گر جانا، عبادت کرلیتا، نوافل پڑھ لینا، سجدہ ریز ہوجانا، اطاعت اختیار کرلینا، گناہوں کو چھوڑ کر عبادت کی زندگی میں آجانا، وعدہ وفائی کرنا، سخاوت کرنا، دوسرے سے بھلائی کرنا۔ جب نیکیوں کا عمل شروع کردیا تو بندے نے شیطان پر پریشر قائم کرلیا۔
توبہ بندے کو طاقتور کرتی ہے۔ کثرت کے ساتھ استغفار توبہ کریں تاکہ نیکی میں اضافہ اور اللہ کی قربت نصیب ہو۔
توبہ نصوح کا معنی
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْٓا اِلَی اﷲِ تَوْبَةً نَّصُوْحًا.
التحریم، 66: 8
’’اے ایمان والو! تم اللہ کے حضور رجوعِ کامل سے خالص توبہ کرلو۔‘‘
نصوح، ناصح سے ہے اسی سے نصیحت بھی ہے۔ یہ مبالغہ کا صیغہ ہے جیسے شکور اور صبور اسی طرح نصوح ہے جس کا مطلب ہے صاف ستھرا ہوجانا بالکل خالص ہونا کوئی میل کچیل و ملاوٹ نہ رہے اس کو نصوح کہتے ہیں۔
اس آیت کی تعریف حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے کی، فرمایا:
التوبة النصوح: ان یتوب من الذنب ثم لا یعود فیه، اولاد یعود فیه.
ابن کثير، تفسیر القرآن العظیم، 8: 168
’’ملاوٹ سے پاک توبہ یہ ہے کہ بندہ گناہ سے ایسی توبہ کرے پھر اس کی طرف پلٹ نہ سکے یا اس کو لوٹایا نہ جاسکے جیسے ماں کا دودھ سینے سے آتا ہے جو دودھ آجاتا ہے وہ پلٹ نہیں سکتا۔‘‘
مثلاً جب جانوروں سے دودھ دھوتے ہیں جانوروں نے چارا کھایا تھا خوراک تو فیلڈ سے آئی تھی جو کسان نے اگائی تھی اب دودھ بن گیا اب پلٹ کے دودھ چارا نہیں بن سکتا۔
توبہ النصوح یہ ہے کہ بندہ نیکیوں کی طرف اتنا آگے بڑھ جائے کہ پھر پلٹ کر اس گناہ کی طرف نہ جاسکے اس کو اللہ کا ولی کہتے ہیں پھر چھوٹے گناہ جو بندگی کا حصہ ہیں ان کو اللہ پاک ان نیکیوں میں بدلتا چلا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اِنْ تَجْتَنِبُوْا کَبَآئِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّئٰتِکُمْ وَنُدْخِلْکُمْ مُّدْخَـلًا کَرِیْمًا.
النساء، 4: 31
’’اگر تم کبیرہ گناہوں سے جن سے تمہیں روکا گیا ہے بچتے رہو تو ہم تم سے تمہاری چھوٹی برائیاں مٹا دیں گے اور تمہیں عزت والی جگہ میں داخل فرما دیں گے۔‘‘
امراضِ دل کا علاج
انطاکی فرماتے ہیں پانچ چیزیں امراضِ دل کا علاج ہیں۔ اس کو عبدالرحمن اسلمی نے روایت کیا یہ توبہ کو توبہ النصوح کا درجہ دیتی ہیں۔ (طبقات الصوفیۃ، 1: 222)
مجالس الصالحین: نیکوں کی ہم نشینی۔ سنگت کی مختلف شکلیں ہیں جو سننے، دیکھنے، بیٹھنے تعلیمات کو ماننے قلبی تعلق رکھنے سے ملتی ہیں۔ اب کمپیوٹر ، انٹرنیٹ آن کرتے ہیں دیکھتے ہیں تو سنگت مل جاتی ہے۔ کتاب پڑھتے ہیں تو یہ کتاب کی سنگت ہوتی ہے۔ بڑی ہستیاں گزر گئیں ان کی کتابوں سے ہی ان کی سنگت میں رہتے ہیں جس طرح کی سنگت مل جائے یہ مجالست ہے۔
قراۃ القرآن باتفکر: قرآن مجید کی قرات کرنا معنی و مفہوم سمجھ کر تفکر کے ساتھ تو قرآن کی صحبت میں چلے جاتے ہیں۔ قرآن کی صحبت میں جانا اللہ کی صحبت میں جانا ہے۔ قرآن اللہ کا کلام ہے۔
خلاء البطن: یعنی اتنا کھانا کہ پیٹ میں کچھ جگہ خالی رہے۔
قیام اللیل: رات کو قیام کرنا۔ قیام اللیل مغرب سے شروع ہوجاتا ہے بعض علماء اوابین کو قیام اللیل میں شمار کرتے ہیں۔ عشاء کی نماز بھی قیام اللیل کا حصہ ہے۔ فجر کی نماز سے پہلے کے درمیانی عرصے کو قیام اللیل کہا گیا ہے۔ رات کے قیام کو دن کے قیام پر فضیلت دی ہے۔ رات کو نوافل، تہجد، تلاوت، درود پاک پڑھنا ذکر کرنا کچھ لمحے اللہ کے حضور رات کی تنہائی میں گزارنا۔
اللہ کے حضور گریہ و زاری کرنا: قیام اللیل میں شمار ہوتا ہے۔ بچوں میں بھی گریہ و زاری کی عادت ہونی چاہئے کیونکہ رونا اللہ کو پسند ہے۔ اللہ اپنے رونے والوں سے محبت کرتا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ کو دو قطرے بے حد پسند ہیں ایک مجاہدہ کا خون کا قطرہ جو اپنے وطن کی حفاظت میں گرتا ہے ایک اس جوان کے آنکھوں کے آنسو کا قطرہ جو خدا کی محبت میں گراتا ہے۔ اس سے دل کے امراض ٹھیک ہوتے ہیں اور توبہ توبہ النصوح بن جاتی ہے۔
حضرت جنید بغدادی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں الحارث المحاسبی سے سنا اس کو بھی عبدالرحمن اسلمی نے روایت کیا ہے:
ماقلت قط اللهم انی اسالک التوبة ولکنی اقول اسالک شهوة التوبة.
امام قشیری، الرسالة القشیریة، 1: 211
فرماتے ہیں: میں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ میں تجھ سے توبہ کا سوال کرتا ہوں بلکہ میں نے کہا اے اللہ! میں تجھ سے توبہ کے عشق کا سوال کرتا ہوں۔ اگر خالی توبہ کا سوال کیا کبھی کرلی کبھی چھوڑ دی۔ توبہ کا عشق مانگتا ہوں جس شے سے عشق ہوجائے بندہ اس شے سے جدا ہی نہیں ہوتا اس کی طبیعت اس کو بھولتی نہیں ہے۔ تمام اثرات بد کو زندگی سے نکال دیتا ہے، خواہ وہ عبادات، معاملات، آداب، حقوق اللہ، حقوق العباد کے دائرے میں آتے ہیں تاکہ اللہ کی نافرنی نہ ہو۔ جب بندہ اپنے قلب کو اللہ کے ساتھ دائماً جوڑ دیتا ہے پھر دوسرے لوگ اس کے ضرر سے بچ جاتے ہیں اور وہ شیطان دنیا کے ضرر سے بچ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توبۃ النصوح اور ایسی توبہ کامل کا حال عطا فرمادے، اس حال کو ہمارے لیے مقام بنادے، استقامت کے ساتھ ہمیں اس پر قائم رکھے۔